جہا ں روشن است ازجمال محمد ودلم تازہ گشت از وصال محمد
خوشامسجد ومدرسہ وخانقاہ ہے کہ دروے بود قیل وقال محمد
جامعہ المصطفیٰ ترویجِ شریعت اور احیائے سنت کی عظیم روحانی تحریک ادارةالمصطفیٰ کے زیرِ اہتمام چلنے والی وہ درسگاہ ہے جو اسلام کی پہلی درسگاہ صفہ کا نظریاتی اور فکر ی تسلسل ہے پیر زادہ محمد رضا ثاقب مصطفائی کی زیرِ سر پرستی ۱۹۹۶ئ کو جامعة المصطفٰے کا سنگ بنیاد رکھا گیا جامعة المصطفٰے ابتداءمیں۵مرلہ کی مختصر سی خستہ حال عمارت پر مشتمل تھا ناظرہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حفظ القرآ ن کی تعلیم تھی ، شعبہ حفظ کی کلاس میں کل پانچ طلبہ اور ناظرہ میں تیس طلبہ تھے غیر رہائشی جامعہ تھا جو صرف قرب و جوار کے طلباءکو زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلیے¿ قائم ہوا ، پہلے ہی سال طلباءکی تعداد میں اضافہ ہو گیا پھر چند طلباءرہائشی داخل ہوئے آہستہ آہستہ طلباءکی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا ۱۹۹۸ ءمیں شعبہ حفظ القرآن سے فارغ ہونے والے طلباءکی دستارِ فضیلت کا پروگرام منعقد کیا گیا عوام کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ نامور علماءکرام نے شرکت کی اور اپنے خیالات کے اظہار میں اِس بات کو بڑے یقین کے ساتھ کہا کے آنے والے وقت میں یہاں سے علم کی شمع روشن ہوگی جس کی کرنیں دور دور تک روشنی پہنچائیں گی علم کا چشمہ جاری ہوگا جس سے دور دراز سے آکر تشنگانِ علم سیراب ہونگے ایسے پھول کھلیں گے جن کی مہک سے عالم مستفیض ہو گا نہایت جانفشانی اور دلجمعی سے کام کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جامعہ نے لمبی مسافت مختصر عرصہ میں طے کر لی۔
کہیں روکے سے رکتی ہے تجلیِ نور ایمان کی
ہوا روکے تو کشتی تیزچلتی ہے مسلمان کی
ہر سال حفظ سے فارغ ہونے والے طلباءکی دستارِ فضیلت کی جا تی رہی اتنی جلدی تعلیمِی ترقی سے اہلِ علاقہ پر گہرہ اثر پڑا تو جامعہ کی طرف متوجہ ہوئے پھر چندہ کی لیے مہم شروع کی گی اہلیانِ لوہیانوالہ اور دیگر عوان و انصارنے اخلاص و فاشعاری کے ساتھ اِس علمی کاروان کو آگے بڑھانے کے لیے ایثارو قربانی کا مظاہرہ کیا جو اپنی مثال آپ ہے عورتوں نے اپنا زیور اتار کر دے دیا اہلِ محبت نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ تعمیر کے چندہ میں دے دی اردگرد کے مکانات خرید کر جدید عمارت کی تعمیر شروع ہوئی کام برابر بڑھتا رہا ۱۹۹۹ کو شاندار جشن مصطفٰی کا پروگرام شروع ہوا جس میں اہلِ محبت کے علاوہ دور دراز کے لوگ شرکت کرتے طلباءکی دستار ِ فضیلت قبلہ حضرت صاحب کا خطاب سننے والے کے دلوں میں اثر چھوڑ جاتا اسی سال شعبہ درسِ نظامی کا آغاز ہوا جس سے اہلِ محبت میں فرحت و انیساط کی عجیب لہر دوڑ گی یوں لگ رہا تھا کہ گمگشتگان ِ راہ کو ایک منزل مل گی ہے درسِ نظامی میں طلباءنے جوق در جوق داخلہ لیا مہتمم اعلیٰ صاحب نے تبلیغی مصروفیت کے باوجود تدریس کی ذمہ داریوں کو باحسن خوبی سر انجام دیا اپنے خاص انداز و امتیازی نصاب سے عرصہ پانچ سال میں علماءکی ایک کھیپ تیار کرکے میدانِ عمل میں اتار دی مقیم طلباءکی تعداد بڑھتی رہی انکی رہائش و خوراک کا بندو بست چلتا رہا حتیٰ کہ یہ عمارت بھی باوجودِ وسعت کے تنگ پر گی قبلہ حضرت صاحب نے مجلسِ شوریٰ سے مشاورت کے بعد ۱۲ کنا ل کا ٰخطہ اراضی قصبہ سے باہر خریدہ تا کہ وسیع پیمانے پر عمارت کی تعمیر شروع کی جائے ۲۰۰۶میں ۱۱، ۲۱ ربیع الاول کی درمیانی شب جامعہ سے فراغت حاصل کرنے والے پنتالیس حفاظ کرام کی دستارِ فضیلت کے مو قع پر فرد معنوی محی السنہ ولی کامل الحاج خواجہ دین محمد مصطفائی نے اپنے دستِ مبارک سے بنیاد رکھی وہ عجیب کیفیت و نور کا منظر تھا سنگ بنیاد میں ۷۸۶ اینٹیں لگیں ہر اینٹ پر مکمل قرآنِ مجید پڑھا گیا شیخِ کامل کا بنیاد میں پہلی اینٹ رکھنا ایسا نورانی منظر تھا جسکی لذت رو ح تو محسوس کر سکتی ہے مگر الفاظ و معا نی کی دنیا تعبیر سے قاصر ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ کاش وہ شگفتہ زمانہ کسی طرح لوٹ آتا فرحت و انیساط سے چھلکتے ہوئے آنکھوں کے پیمانے لب پر درود و سلام کے ترانے رہ رہ کر کون کرے گا رہنمائی ، شالا جیوے مصطفائی ، مصطفائیوں کی صدا یا محمد مصطفٰے کے نعروں کی تکرار نے لوگوں پر وجدانی کیفیت طاری کر دی
جلا کر خرمن دل عشق کوتابندگی دیدے
بلا خون ِ جگر یہ آیئنہ تاباں نہیں ہوتا
مہتمم اعلیٰ کو ملت اسلامیہ کی اخلاقی اصلاحی تبلیغی اور علم ضرورتوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مرکزِ مصطفیٰ کے نام سے ایک عظیم منصوبے کی ضرورت کا احساس تھا لیکن وسائل و ذرائع کی کمی اس پراثرانداز ہوتی رہی بہر حال اللہ تعالیٰ نے منصوبے کے آغاز کا جو وقت متعین کیا اہ آن پہنچا ۱۱۰۲ئ کو اس منصوبے کا پورے تڑک و احتشام کے ساتھ آغاز ہوا اہلِ خیر کے تعاون بزرگوں کی دعاﺅں ، خلوص ، للہیت، منتظمین کی جدو جہد رنگ لائی دو سال قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے موسوم ننانوے ستونوں پر مشتمل پہلا مرحلہ سیدنا ابو بکر صدیق منزل تکمیلی مراحل میں تھی کہ اپریل ۲۰۱۳ کو جامعہ سے فارغ ہونے والے ۱۰۸ علماءو حفاظ کرام کی دستارِ فضیلت کا پروگرام مصطفائی اجتماع کے موقع پر منعقد کیا گیا مقتدر و با عظمت اور پر وقار شخصیت رونق افروز ہوئیں جامعہ کی ترقی ، نظم و نسق اور زبر دست دینی خدمات دیکھ کر عوام تو عوام علماءکی آنکھیں بھی چھلک اٹھیں ۔ جامعہ کی مرکزیت اس بات کی متقاضی تھیں کہ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم و فنون کی تعلیم شروع کی جائے کیونکہ دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل علماءعصری تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے جدید تقاضوں پر پورا اتر نے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے معاشرے میں مروجہ بدعات و خرافات اور گمراہ کن عقائد کی بیخ کنی نہیں ہو پاتی ۔ مہتمم اعلیٰ نے کبھی نہیں چاہا کہ ہمارے طلباءو علماءمحدود زندگی گزاریں ، بلکہ وہ جرات مند مدبر ، مفکر اور حالات آشنا نوجوان دیکھنا چاہتے ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی روح پھونک سکیں جن کے ذریعے گھر لیکر مسجد تک اور دستر خوان سے لیکر ایوان تک نظام ِ مصطفٰی کا بول بالا ہوبنابریں کافی عرصہ سے اسکی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جامعةالمصطفٰی میں بقدر ضرورت دنیوی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے چناچہ درس ِ نظامی کے ساتھ ساتھ میٹرک ،ایف اے اور بی اے تک کی عصری تعلیم کا ۲۰۱۵ کو نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مصلحانہ قدم ±ٹھایا گیا جس سے ذی استعداد اور بہتر صلاحیتوں کے حامل طلباءدینی دنیوی علوم سے فیض یاب ہورہے ہیں ۔ قدیم صالح اور جدید نافع کا بہترین امتزاج لیےجامعةالمصطفٰی اپنی تمام تر جلوہ آرائیوں ، ہمہ جہت صلاحیتوں کے بحث قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے یہ مضبوط اسلامی قلعہ اور گہوارہ تعلیم و تربیت ہے جس نے نا مساحد حالات اور مختلف مسائل کے باوجود اعلیٰ تعلیمی معیار کو بلند رکھتے ہوئے بیشتر معروف درسگاہوں کے مقابلے میں نمایاں شناخت حاصل کی ہے طلباءمیں ڈسپلن ،فروغ علم کا جذبہ لیے مخلص اساتذہ کی مضبوط ٹیم کا انتظام و انصرام قابل دید ہے مہتمم اعلیٰ کے پاکیزہ جذبات اور تمناوں کی جیتی جاگتی تصویر جامعةالمصطفٰی بتدریج ترقی کے مراحل طے کرتا ہوا عظیم الشان جامعہ کی شکل میں دعوت نظار دے رہا ہے ،جامعہ میں طلباءکو محدود فکر نہیں دی جاتی انہین صرف زبان دانی،ادب شناسی،اور احکام ومسائل کا جاننے والا ہی نہیں بنایا جاتا بلکہ حجرہ درس میں رکھتے ہوئے ان کی فکر کے دریچوں کو کھول کر ذہنی وسعتوں سے نوازتے ہوئے آفاقی فکر کا حامل بنایا جاتا ہے
قناعت نہ کر جہان رنگ وبو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اس روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکان اور بھی ہیں